ہزاروں میل جو اپنے وطن سے دور بیٹھے ہیں
وطن کی چاہتوں میں ہر گھڑی وہ چور بیٹھے ہیں
میسر ہیں انھیں آسائشیں سارے زمانے کی
مگر یہ بھی حقیقت ہے بڑے مجبور بیٹھے ہیں
کمانے کے لئے روزی پرائے دیس جاتے ہیں
تو آخر کار وہ اک دن وطن کو لوٹ آتے ہیں
کہ ان کے جسدِ خاکی کو یہ دھرتی ڈھانپ لیتی ہے
دیارِ غیر کی وہ خاک میں کب چین پاتے ہیں
انھیں پردیس میں ساون کی بارش یاد آتی ہے
وہ خوشبو سوندھی مٹی کی تصور کو لبھاتی ہے
بھرا کرتے ہیں آہیں یاد کر کے وہ عزیزوں کو
دنوں کے بعد جب کوئی نئی ای-میل آتی ہے
ہم اچھے تھے جب اپنے دیس میں دکھ درد سہتے تھے
کوئی تکلیف ہو اک دوسرے سے کھل کے کہتے تھے
جب اپنے شہر میں تھے ہم تو اک پہچان تھی اپنی
یہاں رہ کر تو ہمسائے سے بھی انجان رہتے ہیں
ہر اک ذرہ ہمیں دھرتی کا اپنی جاں سے پیارا ہے
اسے پانے کی خاطر ہم نے سب کچھ اپنا ہارا ہے
خدانخواسطہ اس پر اگر کچھ آنچ آجائے
تو پھر بیکار اس کے نام پر جینا ہمارا ہے
ہمارے قائدِ اعظم نے دلوایا تھا یہ خطہ
کہ ہم نے نام پر اسلام کے پایا تھا یہ خطہ
نہ ہونے دیں گے ہم پامال اس کی شانِ رفتہ کو
بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ میں آیا تھا یہ خطہ
وطن کے ایک اِک چپے کو پھولوں سے سجانا ہے
جو ہم سے دور ہیں ان کو خیالوں میں بلانا ہے
نئی نسلوں کو کر کے آشنا اپنے رواجوں سے
انھیں بھی اپنی تہذیب و ثقافت سے ملانا ہے
جو سچ پوچھو تو سچ یہ ہے وطن ایمان ہوتا ہے
پرائے دیس میں انسان کی پہچان ہوتا ہے
کہ جو پردیس میں رہ کر اسے بدنام کرتا ہے
وہ شخص عذراؔ زمانے میں بڑا نادان ہوتا ہے