وفا کے دیپ جلائے ہیں آج بھی جاناں
تمہارے شہر میں آئے ہیں آج بھی جاناں
کھلی ہیں آج ہی کلیاں تمہاری یادوں کی
اور ہم نے اشک بہاۓ ہیں آج بھی جاناں
بہت سے خواب سجاۓ تھے کل بھی آنکھوں میں
بہت سے زخم سجاۓ ہیں آج بھی جاناں
صدف جو پھول کے لہجے میں زخم دیتے ہیں
انہوں نے تیر چلاۓ ہیں آج بھی جاناں