وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں
برس رہی ہے حریم ہوس میں دولت حسن
گدائے عشق کے کاسے میں اک نظر بھی نہیں
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
نگاہ شوق سر بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
یہ عہد ترک محبت ہے کس لیے آخر
سکون قلب ادھر بھی نہیں ادھر بھی نہیں