وقت کٹ تو جاتا ہے راستے نہیں کٹتے
سچ ، بغیر ہمدم کے فاصلے نہیں کٹتے
جن کو دل نے چاہا ہو ، وہ جہاں کہیں جائیں
ان عزیز لوگوں سے رابطے نہیں کٹتے
اک کسک تو رہتی ہے دل کے کونے کھدرے میں
بات کاٹ دینے سے معاملے نہیں کٹتے
انگلیاں نہ زخمی کر ، جو ہے تو ، وہی ہے تو
آئینہ کھرچنے سے آئنیے نہیں کٹتے
چوریاں بھی ہوتی ہیں جنگلوں میں پیڑوں کی
سب درخت لوگوں کے سامنے نہیں کٹتے
واقعے تو کٹتے ہیں وقت کی درانتی سے
وقت کی درانتی سے سانحے نہیں کٹتے
بارہا یہ دیکھا ہے اے صدف کہ لوگوں کے
کچھ سنہری پھندے ہیں ، کاٹتے نہیں کٹتے