غبارِ خاکِ قدم سے فلک ہوا روشن
ہے نورِ خلوتِ آقا سے کج حرا روشن
فقط شمس و قمر روشن نہیں ہیں نورِ آقا سے
کہ نُورِ سرورِ عالم سے ہر عالم ہوا روشن
نہیں ہے دُنیا میں طیبہ سا شہر کہ جس کی
شفق سے شام ہو پُر اور ہو ہوا روشن
لحد میں طلعتِ آقا جب ہوگی جلوہ فگن
اندھیرا قبر کا تب ہوگا دیکھنا روشن
تُو رکھنا دل میں مُشاہدؔ کے دائماً اللہ
وِلاے سرورِ کونین کا دیا روشن