بالوں میں تیرے کس نے سجایا گلاب تھا
جو میرے ہاتھوں قتل ہوا وہ آفتاب تھا
تیری بیوفائی کی عادت پہ ہمسائے بھی رو پڑے
تیرے صحن میں جو کودا تھا وہ ماہتاب تھا
ہر لمحے تو بدلتی رہی جیسے پٹڑی ھو ریل کی
تیرا دل بوڑھے پے آ گیا میں تو شباب تھا
چلو بھر پانی میں مرنے کی ضرورت نہیں تجھے
تیرے گھر کے سامنے تو اک گندا تالاب تھا