وہ بھی اب یاد کریں کس کو منانے نکلے
ہم بھی یوں ہی تو نہ مانے تھے سیانے نکلے
میں نے محسوس کیا جب بھی کہ گھر سے نکلا
اور بھی لوگ کئی کر کے بہانے نکلے
آج کی بات پہ میں ہنستا رہا ہنستا رہا
چوٹ تازہ جو لگی درد پرانے نکلے
ایک شطرنج نما زندگی کے خانوں میں
ایسے ہم شاہ جو پیادوں کے نشانے نکلے
تو نے جس شخص کو مارا تھا سمجھ کر کافر
اس کی مٹھی سے تو تسبیح کے دانے نکلے
کاش ہو آج کچھ ایسا وہ مرا مالک دل
میرے دل سے ہی مرے دل کو چرانے نکلے
آپ کا درد ان آنکھوں سے چھلکتا کیسے
میرے آنسو تو پیازوں کے بہانے نکلے
میں سمجھتا تھا تجھے ایک زمانے کا مگر
تیرے اندر تو کئی اور زمانے نکلے
لاپتہ آج تلک قافلے سارے ہیں امیرؔ
جو ترے پیار میں کھو کر تجھے پانے نکلے