ایک جان اور دو قالب بھی رہے ہیں ہم تم ہائے ! کیا دَور تھا تم کو بھی کبھی یاد آی؟ وہ بھی مِلتا جو گَلے سے تو خوشی عید کی تھی کوئی رہ رہ کے نصیر آج بہت یاد آیا