وہ بے نیاز مجھے الجھنوں میں ڈال گیا
کہ جس کے پیار میں احساس ماہ و سال گیا
ہر ایک بات کے یوں تو دیے جواب اس نے
جو خاص بات تھی ہر بار ہنس کے ٹال گیا
کئی سوال تھے جو میں نے سوچ رکھے تھے
وہ آ گیا تو مجھے بھول ہر سوال گیا
جو عمر جذبوں کا سیلاب بن کے آئی تھی
گزر گئی تو لگا دور اعتدال گیا
وہ ایک ذات جو خواب و خیال لائی تھی
اسی کے ساتھ ہر اک خواب ہر خیال گیا
اسے تو اس کا کوئی رنج بھی نہ ہو شاید
کہ اس کی بزم سے کوئی شکستہ حال گیا