وہ سرورِ کشورِ رسالت ، جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں ، عرب کے مہماں کے لئے تھے
بہار ہے شادیاں مبارک ، عرب کو آبادیاں مبارک
ملک فلک اپنی اپنی لے میں ، یہ گھر عنادل کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں ، رچی تھے شادی مچی تھی دھومیں
اُدھر سے انوار ہنستے آتے ، اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے
یہ چھوٹ پڑتی تھی اُن کے رُخ کی ، کہ عرش تک چاندنی تھی چٹکی
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی ، جگہ جگہ نسب آئینے تھے
نئی دُلہن کی پھبن میں کعبہ ، نکھر کے سنورا سنور کے نکھرا
حجر کے صدقے کمر کے اِک تل ، میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دُولہا کے پیارے جلوے ، حیاء سے محراب سر جھکائے
سیاہ پردے کے منہ پر آنچل ، تجلی ذات بخت کے تھے
خوشی کے بادل اُمڈ کے آئے ، دلوں کے طاؤس رنگ لائے
وہ نغمہ نعت کا سماں تھا ، حرم کو خود وجد آ رہے تھے
وہ جھوما میزابِ زر کا جھومر ، کہ آرہا کان پر ڈھلک کر
پھوہار برسی تو موتی جھڑ کر ، حطیم کی گود میں بھرے تھے
دُلہن کی خوشبو میں مست کپڑے ، نسیم گستاخ آنچلوں سے
غلافِ مشکیں جو اُڑ رہا تھا ، غزال نافے بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حسنِ تزئیں ، وہ اونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں
صباء سے سبزہ میں لہریں آئیں ، دوپٹے دھانی چنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں میں وہ چمکتا ، لباس آبِ زر کا پہنا
کہ موجیں چھڑیاں تھیں دھار لچکا ، حبابِ تاباں کے تھل ٹکے تھے
پرانا پر داغ ملگجا تھا ، اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجومِ تارنگہ سے کوسوں ، قدم قدم فرش بادلے تھے
غبار بن کر نثار جائیں ، کہاں اب اُس رہ گزر کو پائیں
ہمارے دل حوریوں کی آنکھیں ، فرشتوں کے پر جہاں بچھے تھے
خدا ہی صبر دے جانِ پر غم ، دکھاؤں کیونکر تجھے وہ عالم
جب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی ، جناں کا دولہا بنا رہے تھے
اُتار کر اُن کے رُخ کا صدقہ ، وہ نور کا بٹ رہا تھا باڑا
کہ چاند سورج مچل مچل کر ، جبیں کی خیرات مانگتے تھے
وہی تو اب تک چھلک رہا ہے ، وہی تو جوبن ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گرا تھا پانی ، کٹورے تاروں نے بھر لیے تھے
بچا جو اُن کے تلوؤں کا دھوؤن ، بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنہوں نے دُولہا کی پائی اُترن ، وہ پھول گلزارِ نور کے تھے
خبر ہی تحویل مہر کی تھے ، کہ رُت سہانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیبِ تن کی ، یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلی حق کا سہرا سر پر ، صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاور
دو رویہ قدسی پرے جما کر ، کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں ہوتے خاکِ گلشن ، لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو ، یہ نامرادی کے دن لکھے تھے
ابھی نہ آئے تھے پشتِ زیں تک ، کہ سر ہوئی مغفرت کی شلک
صدا شفاعت نے دی مبارک ، گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا ، غزال دم خوردہ سا بھڑکانہ
شعاعیں بکے اُڑا رہی تھیں ، تڑپتے آنکھوں پہ ساعقے تھے
ہجومِ اُمید سے گھٹاؤ ، مرادیں دے کر انہیں ہٹاؤ
ادب کی باگیں لئے بڑھاؤ ، ملائکہ میں یہ غلغلے تھے
اُٹھی جو گردِ رہ منور ، وہ نور برسا کہ راستے بھر
گھرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل ، امنڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
ستم کیا کیسی مت کٹی تھی ، قمر وہ خاک اُن کے رہ گزر کی
اُٹھا نہ لایا کہ ملتے ملتے ، یہ داغ سب دیکھنا مٹے تھے
بُراق کے نقش سم کے صدقے ۔ وہ گل کھلائے کہ سارے رستے
مہکتے گلبن، مہکتے گلشن ، ہرے بھرے لہلہا رہے تھے
نمازِ اقصیٰ میں تھا یہی سِر ، عیاں ہو معنیئ اول و آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر ، جو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دبدبہ تھا ، نکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نجوم و افلاک جام و مینا ، اُجالتے تھے کھنگالتے تھے
نقاب اُلٹے وہ مہر انور ، جلالِ رُخسار گرمی پر
فلک کو ہیبت سے تپ چڑھی تھی ، تپکتے انجم کے آبلے تھے
یہ جوششِ نور کا اثر تھا ، کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفائے رہ سے پھسل پھسل کر ، ستارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وحدت ، کہ دُھل گیا نامِ ریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت ، یہ عرش و کرسی دو بلبلے تھے
وہ ظلِ رحمت وہ رُخ کے جلوے ، کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زربفت اودی اطلس ، یہ تھان سب دھوپ چھاؤں کے تھے
چلا وہ سرو چماں خراماں ، نہ رُک سکا سدرہ سے بھی داماں
پلک چھپکتی رہی وہ کب کے ، سب این و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اک قدسیوں پر آئی ، ہوا بھی دامن کی پھر نہ پائی
سواری دُولہا کی دُرود پہنچی ، برات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے روح الامیں کے بازو ، چھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رکاب چھوٹی ُمید ٹوٹی ، نگاہِ حسرت کے ولولے تھے
روّش کی گرمی کو جس نے سوچا ، دماغ سے اک بھبوکا پھوٹا
خرد کے جنگل میں پھول چمکا ، دَہر دَہر پیڑ جل رہے تھے
جلو میں جو مرغ عقل اُڑے تھے ، عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ پر ہی رہے تھے تھک کر ، چڑھا تھا دم تیور آگئے تھے
قوی تھے مرغانِ وہم کے پر ، اُڑے تو اُڑنے کو اور دم بھر
اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر ، کہ خونِ اندیشہ تھوکتے تھے
سُنا یہ اتنے میں عرشِ حق نے ، کہا مبارک ہوں تاج والے
وہی قدم خیر سے پھر آئے ، جو پہلے تاجِ شرف تیرے تھے
یہ سُن کے بے خود پکار اُٹھا ، نثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر ان کے تلوؤں کا پاؤں بوسہ ، یہ میری آنکھوں کے دن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے کو عرشِ اعلیٰ ، گرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مل رہا تھا ، وہ گرد قرباں ہو رہے تھے
ضیائیں کچھ عرش پر یہ آئیں ، کہ ساری قندیلیں جھلملائیں
حضورِ خورشید کیا چمکتے ، چراغ منہ اپنا دیکھتے تھے
یہی سمان تھا کہ پیکِ رحمت ، خبر یہ لایا کہ چلئے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو ، کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے محمد قریں ہو احمد ، قریب آ سرورِ ممجد
نثار جاؤں یہ کیا ندا تھی ، یہ کیا سماں تھا یہ کیا مزے تھے
تبارک اﷲ شان تیری ، تجھی کا زیبا یہ بے نیازی
کہیں تو وہ جو شِ لَنْ تَرَانِیْ ، کہیں تقاضے وصال کے تھے
خرد سے کہہ دو سر جھکا لے ، گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں خود جہت کو لالے ، کسے بتائے کدھر گئے تھے
سراغِ این و متیٰ کہاں تھا ، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی ، نہ سنگ منزل نہ مرحلے تھے
اُدھر سے پیہم تقاضے آنا ، اِدھر تھا مشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا ، جمال و رحمت اُبھارتے تھے
بڑھے تو لیکن جھجکتے ڈرتے ، حیا سے جھکتے ادب سے رکتے
جو قرب انہیں کی روش پہ رکھتے ، تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پر ان کا بڑھنا تو نام کو تھا ، حقیقتہً فعل تھا اُدھر کا
تنزلوں میں ترقہ افزا ، دنیٰ تدلّی کے سلسلے تھے
ہوا یہ آخر کہ اک بجرا ، تموج بحرِ ہو میں اُبھرا
دنیٰ کی گودی میں ان کو لے کر ، فنا کے لنگر اُٹھا دئیے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارا ، کدھر سے گزرا کہاں اُتارا
بھرا جو مثل نظر طرار ، وہ اپنی آنکھوں میں چھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دنیٰ کے پردے ، کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دوئی کہ ، نہ کہہ کہ وہ ہی نہ تھے ارے تھے
وہ باغ ایسا رنگ لایا ، کہ غنچہ و گل کا فرق اُٹھایا
گرہ میں کلیوں کی باغ پھولے ، گلوں کے تکمے لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل ، رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے ، عجیب چکر میں دائرے تھے
حجاب اُتھنے میں لاکھوں پردے ، ہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فرقت ، جنم کے بچھرے گلے ملے تھے
زبانیں سوکھی دکھا کے موجیں ، تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور کو یہ ضعفِ تشنگی تھا ، کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخر ، وہی ہے باطن وہی ہے ظاہر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے ، اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو ، تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو ، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
ادھر سے تھیں نذر شہ نمازیں ، ادھر سے انعامِ خسروی تھا
سلام و رحمت کی ہار گندھ کر ، گلوئے پر نور میں پڑے تھے
زبان کو انتظارِ گفتن ، تو گوش کو حسرتِ شنیدن
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا ، جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ برج بطحا کا ماہ پارا ، بہشت کی سیر کو سدھارا
چمک پہ تھا خلد کا ستارا ، کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سرورِ مقدم کی روشنی تھی ، کہ تابشوں سے مہ عرب کی
جناں کے گلشن تھے جھاڑ فرشی ، جو پھول تھے سب کنول بنے تھے
طرب کی نازش کے ہاں لچکئے ، ادب وہ بندش کہ ہل نہ سکیے
یہ جوشِ ضدین تھا کہ پودے ، کشاکش ارّہ کے تلے تھے
خدا کی قدرت کہ چاند حق کے ، کروڑوں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی ، کہ نور کے تڑکے آ لےے تھے
نبی رحمت شفیع اُمت ، رضاؔ پہ ﷲ ہو عنایت
اِسے بھی اُن خلعتوں سے حصہ ، جو خاص رحمت کے واں بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ ، قبولِ سرکار ہے تمنا
نہ شاعری کی ہوّس نہ پروا ، ردیف کیا قافیے کیا تھے