وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جو تیرے در سے یار پھرتے ہیں
در بدر یوں ہی خار پھرتے ہیں
آہ کل عیش تو کئے ہم نے
آج وہ بے قرار پھرتے ہیں
ان کے ایما سے دونوں باگوں پر
خیلِ لیل و نہار پھرتے ہیں
ہر چراغ مزار پر قدسی
کیسے پروانہ وار پھرتے ہیں
اس گلی کا گدا ہوں میں جس میں
مانگتے تاجدار پھرتے ہیں
جان ہے جان کیا نظر آئے
کیوں عدو گردِ غار پھرتے ہیں
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
لاکھوں قدسی ہیں کامِ خدمت پر
لاکھوں گردِ مزار پھرتے ہیں
وردیاں بولتے ہیں ہرکارے
پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں
رکھیے جیسے ہیں خانہ زاد ہیں ہم
مول کے عیب دار پھرتے ہیں
ہائے غافل وہ کیا جگہ ہے جہاں
پانچ جاتے ہیں چار پھرتے ہیں
بائیں رستے سے نہ جا مسافر سن
مال ہے راہ مار پھرتے ہیں
جاگ سنسان بَن ہے رات آئی
گُرگ بہرِ شکار پھرتے ہیں
نفس پہ کوئی چال ہے ظالم
جیسے خاصے بجار پھرتے ہیں
کوئی کیوں پوچھے تیری بات رضاؔ
تجھ سے شیدا ہزار پھرتے ہیں
مقطعہ میں اعلحٰضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمٰن نے اپنے آپ کو عاجزاً ''کتا'' لکھا ہے ۔ لیکن میں نے ادبِ اعلحٰضرت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ''شیدا'' لکھ دیا ہے۔