وہ صدائیں دیتا رہا ہو میں نے سنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے لگ رہا ہو جدا مگر وہ جدا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہیں کوئی راز یگانگی نہیں کوئی ساز فسانگی
مگر ایک ساز فسانہ راز یگانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں سمجھتا ہوں اسے خوش نصیب کوئی چومتا ہے اگر صلیب
کہ یہ ساز مرگ ہی زندگی کا ترانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیاسلائی کی روشنی میں تلاش کرتا رہا تمہیں
مگر اپنا مقصد اندھیری رات بتانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں تمہارے عشق میں رات دن جو دکھائی دیتا ہوں مطمئن
مرا گھر ہی صرف لٹا ہو دل تو لٹا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ شمار ماہ و نجوم ہو کہ خمار ترک رسوم ہو
کوئی بار سوچ بچار ہی کا پڑا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی ہونٹ سے کوئی رس ملے کوئی دم فرشتہ نفس ملے
وہ ملا بھی ہو تو مجھے دوبارہ ملا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترے پاؤں چھوتی وہ ساعتیں وہ تغیرات کی سبقتیں
کسی پل کا جیسے کہیں بھی کوئی سرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے اپنے رنگ میں صندلی جو ہے اپنے لمس میں مخملی
مری خلوتوں کو اسی نے جیسے لبھانا ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ اساس عزم سے آشنا وہ لباس نظم سے رونما
کسی قافیے یا ردیف سے وہ کھلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی آبشار نہ آب جو کسی اور لہر کی آرزو
مری پیاس بجھنے کا اور کوئی ٹھکانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کہیں یوں نہ ہو کوئی پل صراط کے پار ہو مرا منتظر
مگر اس کو جا کے ادھر تلاش کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی عید پر یا بسنت پر وہ ملے گا عمر کے انت پر
میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ بھی کوئی بہانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ افق بنفسی جو کھو چکا کوئی آفتاب جو سو چکا
انہیں رنج میرے اکیلے پن کا رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے ناز اپنے خیال پر مجھے ناز اس کے جمال پر
میں سمجھ رہا ہوں جسے نیا وہ نیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرے دل کے دین کو بیچ کر کوئی لے گیا مجھے کھینچ کر
مرے انگ انگ میں اپنا رنگ جمانا ہو کہیں یوں نہ ہو
یہی ہم قدم کی ہیں لغزش یہی زیر و بم کی ہیں لرزشیں
جسے بھولنا نہ ہو وہ ہی یاد رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی شعلہ سا جو بھڑک اٹھا کوئی درد سا جو چمک اٹھا
مرے درد دل کا یہ عارضہ بھی پرانا ہو کہیں یوں نہ ہو
میں دیے جلاؤں منڈیر پر کہ ضرور آئے گا وہ ادھر
اسی شام وہ کسی اور سمت روانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کبھی سرمئی کبھی آتشی کبھی نقرئی کبھی کاسنی
کسی ایک رنگ میں رہ کے جی ہی لگانا ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی فرش و عرش میں کچھ نہیں میں جھکا رہا ہوں یوں ہی جبیں
جسے ڈھونڈوں میں وہ قدم ہی اس نے رکھا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہمیں سرکشی سے مقدروں کو بدلنا آیا نہیں ابھی
مگر ایسا کرنا محبتوں میں ردا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو تھی کل وہ آج ہے زندگی ابھی لا علاج ہے زندگی
کہ مسیح عصر کے پاس اس کی دوا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ مصوری ہوئی شاعری کسی کام آئے یہ ساحری
دل پاک باز بھی مہ رخوں کا دوانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
شب وصل جلوۂ طور سا وہ بدن چمکتا تھا نور سا
کوئی لا زوال وفور رنگ شبانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں کہاں سے لاؤں وہ زندگی جو سراسر اس کی ہو بندگی
مری روح کی جو طلب ہے اس کی رضا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مرا آخرت پہ تو ہے یقیں کہیں زہر ہو نہ یہ انگبیں
میں حقیقت اس کو سمجھ لوں اور وہ فسانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ ستیزہ کاری نہ ہو شروع ہے کہاں غروب کہاں طلوع
جو ترا زمانہ ہو وہ ہی مرا زمانہ ہو کہیں یوں نہ ہو
میں گزر کے آیا ہوں قبر سے کہ علاقہ رکھتا ہوں صبر سے
مری روح میں کوئی اضطراب فنا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
یہ گریز تو ذرا کم کرو مری کائنات میں رم کرو
سو گرم کرو کہ دوبارہ پر یہ خلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ سہاگ رات چمک سکی یوں ہی کسمساتے سحر ہوئی
کوئی دیپ گمشدہ تھالیوں میں جلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھے اس کی شکل دکھائی دے نہ ہی اپنی شکل دکھائی دے
مرا آئینہ مرے شیشہ گر کی عطا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مجھی تیرہ بخت کی بات ہے کہ یہ وقت وقت کی بات ہے
جسے یاد کر کے جیوں اسی کو بھلانا ہو کہیں یوں نہ ہو
جو ہے میرے دل کا معاملہ جو ہے نظم دہر سے ماورا
کہیں اس کے واسطے حرف کن ہی کہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ برہنگی کا قصیدہ کہتے ہوئے ادھر نکل آیا تھا
مگر اس کی آنکھوں میں ستر پوش حیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
نہ وہ یار تھا نہ وہ داشتہ میں کہاں پناہ تراشتا
مجھے لے کے دل مرا در بدر ہی پھرا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
سر راہ سینہ نکالتا ہوا آیا تھا جو وہ خوش نگاہ
دل عشق خو کو وہ پر غرور لگا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ہو عبث یہاں اسے دیکھنا ہو عبث یہاں اسے ڈھونڈھنا
مرا یار میرے بغیر جی ہی سکا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ خیال کھول کے دیکھنا وہ سوال تول کے دیکھنا
کہ سمجھ رہے ہو جسے خفا وہ خفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
مری زندگی تری بندگی سے جدا نہیں کبھی غور کر
مرے اجتہاد پہ تو نے غور کیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
اسی واسطے ابھی زندگی ہوں کہ تمہارا چہرہ ہے سامنے
کوئی اور شخص مری نظر میں جچا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ کوئی دغا کوئی معرکہ وہ شجاعتیں اور محاصرہ
وہ کوئی قدیم رجز سنا ہی گیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
جو عزیز جاں سے ہے کافرہ اسے زیب دے نہ منافرہ
یہ نہیں بعید کہ اس کو پاس وفا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
ترا حسن اسیر نہ کر سکا نہ میں تیرے واسطے مر سکا
کہیں میرا ساتھ مرے خدا نے دیا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کوئی ہجرتی غم دہر میں ہو رواں دواں کسی لہر میں
کوئی رہ رہا تھا جہاں وہاں وہ رہا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
وہ قرون اصل کی ساعتیں وہ جنون وصل کی راحتیں
مرے واسطے ہوں مجھے پتہ ہی چلا نہ ہو کہیں یوں نہ ہو
کسی اور کے لیے ہو چھپا کے ہنسی وہ اس نے رکھی ہوئی
ظفرؔ اک مجھی کو ہمیشہ خون رلانا ہو کہیں یوں نہ ہو