وہ لڑکا ایک ہی غزل کو سنتا رہا کئی گھنٹوں تک
ویران بستی میں آگ لگی اور دھواں اٹھتا رہا کئی گھنٹوں تک
بڑے نازک مرحلے سے گزرتی ہیں آنکھیں لمحہِ نیند میں
سو وہ بڑی باریکی سے خواب بنتا رہا کئی گھنٹوں تک
یوں بھی ہوا کہ کئی مہینوں تک ٹالتے رہے ہر حرفِ جذبات کو
پھر جو کبھی لکھی غزلیں تو پھر لکھتا ہی رہا کئی گھنٹوں تک
رکی گردشیں تو کوئی خیال بھی تصور میں نہ آیا
پھر جو کبھی چلا سلسلہ وحشت کا تو پھر چلتا ہی رہا کئی گھنٹوں تک