وہ نقاب آپ سے اٹھ جائے تو کچھ دور نہیں
ورنہ میری نگہ شوق بھی مجبور نہیں
خاطر اہل نظر حسن کو منظور نہیں
اس میں کچھ تیری خطا دیدۂ مہجور نہیں
لاکھ چھپتے ہو مگر چھپ کے بھی مستور نہیں
تم عجب چیز ہو نزدیک نہیں دور نہیں
جرأت عرض پہ وہ کچھ نہیں کہتے لیکن
ہر ادا سے یہ ٹپکتا ہے کہ منظور نہیں
دل دھڑک اٹھتا ہے خود اپنی ہی ہر آہٹ پر
اب قدم منزل جاناں سے بہت دور نہیں
ہائے وہ وقت کہ جب بے پیے مدہوشی تھی
ہائے یہ وقت کہ اب پی کے بھی مخمور نہیں
حسن ہی حسن ہے جس سمت اٹھاتا ہوں نظر
اب یہاں طور نہیں برق سر طور نہیں
دیکھ سکتا ہوں جو آنکھوں سے وہ کافی ہے مجازؔ
اہل عرفاں کی نوازش مجھے منظور نہیں