مرے سامعین تم پر میں دھیان دے رہا ہو
وہ چلارہا ہے خنجر میں بیان دے رہا ہوں
سرِ منبر آکر اس کو یونہی کوستا رہوں گا
کسی روز گر مرے گا میں زبان دے رہا ہوں
میں جوبات کہ رہا ہوں اسے تم نے ٹھیک سمجھا
نہیں کوئی دھمکی اس میں میں گیان دے رہا ہوں
میں جھٹک نہیں رہا ہوں ترے دستِ آرزو کو
تجھے تیغ کی طلب ہے میں میان دے رہاہوں
نہ ہے تو حریف میرا نہ ہوں میں ترے مقابل
تو بجا رہاہے گھنٹی میں اذان دے رہا ہوں
میں مسعود دشتِ وحشت پہ چڑھا ہوں جن سے بچ کر
وہ سمجھ رہے ہیں شاید کہ میں جان دے رہا ہوں