وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
Poet: سدرشن فاکر By: Sahir, karachiیہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو 
 بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی 
 مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی 
 یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو 
 
 بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی 
 مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی 
 محلے کی سب سے نشانی پرانی 
 وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی 
 
 وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا 
 وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا 
 بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی 
 وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی 
 
 کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا 
 وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا 
 وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا 
 وہ جھولوں سے گرنا وہ گرتے سنبھلنا 
 وہ پیتل کے چھاؤں کے پیارے سے تحفے 
 وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی 
 
 کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا 
 گھروندے بنانا بنا کے مٹانا 
 وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی 
 وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی 
 نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن 
 بڑی خوب صورت تھی وہ زندگانی 
 
 یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو 
 بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی 
 مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی 
 وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل






