Add Poetry

وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی

Poet: جگر مراد آبادی By: عابد, Islamabad

وہ کافر آشنا نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی

تعجب کیا اگر رسم وفا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہ حسن و عشق کا ہر مسئلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی

کہیں ذرہ کہیں صحرا کہیں قطرہ کہیں دریا
محبت اور اس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی

وہ مجھ سے پوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا
بتاؤں کیا کہ میرا مدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی

ہم ان سے کیا کہیں وہ جانیں ان کی مصلحت جانے
ہمارا حال دل تو برملا یوں بھی ہے اور یوں بھی

نہ پا لینا ترا آساں نہ کھو دینا ترا ممکن
مصیبت میں یہ جان مبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی

لگا دے آگ او برق تجلی دیکھتی کیا ہے
نگاہ شوق ظالم نارسا یوں بھی ہے اور یوں بھی

الٰہی کس طرح عقل و جنوں کو ایک جا کر لوں
کہ منشائے نگاہ عشوہ زا یوں بھی ہے اور یوں بھی

مجازیؔ سے جگرؔ کہہ دو ارے او عقل کے دشمن
مقر ہو یا کوئی منکر خدا یوں بھی ہے اور یوں بھی

Rate it:
Views: 429
22 Dec, 2021
More Jigar Moradabadi Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets