ولیمے کی دعوت میں وہ کسی کو بتا کےنہیں گیا
خدا خیر کرے وہ گھرسے کچھ کھا کے نہیں گیا
اس کا چہرہ کھلا رہتا ہے گلاب کی مانند
اسی لیے وہ کالر میں پھول لگا کے نہیں گیا
نہ جانے وہ کچے روسٹر کیسے چبائے گا
آج بھولے سے وہ بتیسی بھی لگا کے نہیں گیا
کیسے سب کا سامنا کر پائے گا بھری محفل میں
وہ کسی کا ادھار بھی چکا کے نہیں گیا
وہ جانتا ہے کہاسکی حجامت ضرور ہونی ہے
اسی ڈر سے وہ وگ بھی لگا کے نہیں گیا
اصغر کی دعا ہے آج میرا یار صحیح سلامت لوٹ آئے
وہ تھانے میں رپٹ بھی لکھوا کے نہیں گیا