وہ کہتے ہیں قلم سے جو لکھو وہ حکمرانوں کی رضا لکھو
وہ کہتے ہیں سچائی زہر ہے اسسے صفحے کالے نہیں کرنا
وہ کہتے ہیں علم کیا ہے یہ تشریح ہم نے کرنی ہے
کہ اسکی وسعتیں کیا ہیں اسے کسے حد میں رکھنا ہے
وہ کہتے ہیں حصول علم ہر اک بشر پر لازم نہیں ہوتا
وہ کہتے ہیں علم تحقیق بن جائے تو یہ ہاضم نہیں ہوتا
وہ کہتے کہ انکے دیس میں انکا کہا سچ مانا جاتا ہے
سنو گے سچ سوا اسکے سماعت چھن بھی سکتی ہے
وہ کہتے ہیں وہی دکھلائو جو حاکم ہمارے دیکھنا چاہیں
دکھایا گر سوا اس کے ،تو بازو کٹ بھی سکتے ہیں
وہ کہتے ہیں ہمارا ہی کہا دہرائو گے تو سرخرو ہوگے
جو خود اپنا کہو گےسچ زبانیں کٹ بھی سکتی ہیں
وہ کہتے ہیں ، ہماری ہی نگاہوں سے جہاں دیکھو
جو دیکھا اپنی آنکھوں سے بصارت جا بھی سکتی ہے
وہ کہتے ہیں جمہوری طرز اک مغرب کی لعنت ہے
مگر ساعت ہر اک انکی اسی مغرب کی صورت ہے
یہ سنتے آئے تھے دیوی عدل کی اندھی ہوتی ہے
وہ چاہتےہیں عدالت انکے ہاں کی بے زباں بھی ہو
وہ کہتے ہیں کہ انکے دیس میں تنظیم سازی زہر قاتل ہے
وہ کہتے ہیں یہاں پہ فکر سازی ذہن سازی ایک بدعت ہے
سو اب دھوکے میں مت رہنا یہ سانسیں چھن چکی کب کی
سماعت چھن چکی کب کی،بصارت جا چکی کب کی
زبانیں کٹ چکی کب کی یہ اب بے جان دھرتی ہے
وطن ہے زندہ لاشوں کا بے حس مردہ مکانوں کا
جنہیں آباد کرنا شاد کرنا ہے جنہیں پہچان دینی ہے
جنہیں بے خواب نیندوں سے جگانااور انہیںآگاہ کرناہے
کسی بھی دیس کی رونق کسی دھرتی کی زرخیزی
وہاں کے لوگ ، انکے مسکراتے ، خواب ہوتے ہیں
چلو ڈھونڈیں انہی لوگوں میں انکی مسکراہٹ کو
جو ان سے چھن چکی ہیں اور ان سے روٹھ بیٹھی ہیں
امیدوں آرزوءوں کو جو تشنہ رہ گئیں کب سے
اور ان خوابوں کو جنکو ظالموں نے ان سے چھینا ہے