وہ ہر خیال میں اپنا گمان چھوڑ گیا
کس انتہا پہ میرا مہربان چھوڑ گیا
دیوانہ وارمیں چلتی رہی رستوںپہ کٹھن
وہ میرے واسطے کتنے نشان چھوڑ گیا
جما کے نظریں خموشی سے میرےچہرے پر
سفر کی اپنی وہ ساری تھکان چھوڑ گیا
اپنی کشتی کوہی مو جوں کےحوالےکر کے
ہو ا کے رحم پر وہ باد بان چھوڑ گیا
ادھوری چاہتیں دم توڑ تی تمنائیں
کئ عذاب میں وہ میری جان چھوڑ گیا
مری وارفتہ گری اس کو موم کر نہ سکی
بنا کے مجھ کو بھی وہ اک چٹان چھوڑ گیا
بے رخی سے میری شاموں کو بھی تنہاکرکے
وہ میرے واسطے خالی مکان چھوڑ گیا
پھٹا تو زندگی لے جائے نہ بہا کے میری
وہ حسرتوں کا اک آتش فشان چھوڑ گیا