وہ ہم سے بد گُمان رہے بد گُمان ہم
Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, کوئٹہوہ ہم سے بد گُمان رہے، بد گُمان ہم
سو کیا گئے کہ چھوڑ کے نِکلے مکان ہم
فاقے پڑے تو پاؤں تلے (تھی زمِیں کہاں)
ایسے کہاں کے عِشق کے تھے آسمان ہم
اب یہ کُھلا کہ جِنسِ محبّت تمام شُد
پچھتائے اپنے دِل کی بڑھا کر دُکان ہم
کرتا ہے پہلا وار جو وہ منہ کے بل گِرے
رکھتے نہیں ہیں کھینچ کبھی بھی کمان ہم
ہم چُپ رہے جو دورِ گِرانی میں اِس طرح
اِک دِن ہوا میں سانس پہ دیں گے لگان ہم
اپنی خُوشی جو بِھینٹ چڑھائی ہے ہم نے آج
جِیون کِسی بھگت کو کریں کیوں نہ دان ہم
پہلی اُڑان کی تو تھکن تک گئی نہِیں
بھرنے لگے ہیں عِشق کی پِھر سے اُڑان ہم
اِتنا یقِیں تو ہے کہ وہ لوٹے گا ایک دِن
بیٹھیں یہِیں کہِیں پہ لگا کر گِدان ہم
مانا کہ دیکھنے کو تو ہم دھان پان ہیں
مسلک ہے عِشق، عشق کی ہیں آن بان ہم
دیکھو تو چار سُو ہے حسِینوں کا اِک ہُجُوم
جاتی رہی حیات، ہُوئے رفتگان ہم
باندھا ہے عہد، عہد کا ہے پاس بھی رشِید
کُنبہ لُٹا کے رکھتے ہیں اپنی زُبان ہم
یہ خزاں ہے بہار ہے کیا ہے
سب کو مشکوک تم سمجھتے ہو
خود پہ بھی اعتبار ہے کیا ہے
سوا نیزے پہ چاہیے سورج
جسم میں برف زار ہے کیا ہے
مجھ کو منزل نظر نہیں آتی
دور تک رہ گزار ہے کیا ہے
کوئی آہٹ تلک نہیں ہوتی
میرے اندر مزار ہے کیا ہے
ایک پل بھی نہیں مرا اپنا
زندگانی ادھار ہے کیا ہے
میرے ہمدم ذرا بتا مجھ کو
یہ جوانی خمار ہے کیا ہے
ہے جو مجھ سے اسدؔ گریزاں سا
مصلحت کا شکار ہے کیا ہے
نوید ہو کہ یہ کارِ فضُول کر ہی لیا
نجانے کون سے پاپوں کی فصل کاٹی ہے
دِلوں کو زخم، سو چہروں کو دُھول کر ہی لیا
گُلاب جِن کے لبوں سے چُرا کے لائیں رنگ
بُرا ہو وقت کا اُن کو ببُول کر ہی لیا
یہ ان کے اعلیٰ نسب کی کُھلی دلِیل رہی
کہ دوستوں میں ہمارا شمُول کر ہی لیا
مُقدّمہ ہے یہ کیسا کہ ختم ہوتا نہِیں
جو دَھن تھا پاس سُپُردِ نقُول کر ہی لیا
ہُوئے ہیں فیصلے سے ہم مگر تہہ و بالا
کِیا ہے ماں نے تو ہم نے قبُول کر ہی لیا
عطا تھی اُس کی سو دِل سے لگا لیا ہم نے
دِیے جو خار تو اُن کو بھی پُھول کر ہی لیا
تُمہارے چہرے کی صُبحوں کو ہم ترستے ہیں
کِسی کی زُلف کی راتوں نے طُول کر ہی لیا
رشید درد کی خیرات بٹ رہی تھی کہِیں
سو اپنے نام کا بخرا وصُول کر ہی لیا
لوگ کہتے ہیں مغرور اور کبھی پاگل ہیں کہتے
یوں تو سنتے ہیں ہر روز بہت اچھے الفاظ بھی
مگر ہم لفظوں سے زیادہ لہجے ہیں سمجھتے
بات کرتے ہیں سیدھی اور زہر کی مانند
ہم باتوں باتوں میں بات نہیں بدلتے
خیال رکھتے ہیں رشتوں کے تقد س کا مگر
نا قدری کرنے والوں کو ہم دوبارہ نہیں ملتے
یہ لوگ جو بن بیٹھے ہیں خدا، سُن لیں
ہم رب کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے






