وہ ہم نہیں جنہیں سہنا یہ جبر آ جاتا
تری جدائی میں کس طرح صبر آ جاتا
فصیلیں توڑ نہ دیتے جو اب کے اہل قفس
تو اور طرح کا اعلان جبر آ جاتا
وہ فاصلہ تھا دعا اور مستجابی میں
کہ دھوپ مانگنے جاتے تو ابر آ جاتا
وہ مجھ کو چھوڑ کے جس آدمی کے پاس گیا
برابری کا بھی ہوتا تو صبر آ جاتا
وزیر و شاہ بھی خس خانوں سے نکل آتے
اگر گمان میں انگار قبر آ جاتا