وہ یوں ملا کہ بظاہر خفا خفا سا لگا
نہ جانے کیوں وہ مجھے پھر بھی با وفا سا لگا
مزاج اس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
غبار وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھٹی گھٹی سی لگی رات انجمن کی فضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شاید سبھی پہ گزری ہو
فسانہ جو بھی سنا کچھ سنا سنا سا لگا
مجال عرض تمنا کرے کوئی کیسے
جو لفظ ہونٹوں پہ آیا ڈرا ڈرا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہم سفر بھی ملا کچھ تھکا تھکا سا لگا
اسی کا نام ہے شائستگی و پاس وفا
پلک تک آ کے جو آنسو تھما تھما سا لگا
کچھ اس خلوص سے اس نے کہا مجھے اقبالؔ
خود اپنا نام بھی مجھ کو بڑا بڑا سا لگا