وہی ہے وحشت وہی ہے نفرت آخر اس کا کیا ہے سبب
انساں انساں بہت رٹا ہے انساں انساں بنے گا کب
وید اپنیشد پرزے پرزے گیتا قرآں ورق ورق
رام و کرشن و گوتم و یزداں زخم رسیدہ سب کے سب
اب تک ایسا ملا نہ کوئی دل کی پیاس بجھاتا جو
یوں میخانہ چشم بہت ہیں بہت ہیں یوں تو ساقی لب
جس کی تیغ ہے دنیا اس کی جس کی لاٹھی اس کی بھینس
سب قاتل ہیں سب مقتول ہیں سب مظلوم ہیں ظالم سب
خنجر خنجر قاتل ابرو دلبر ہاتھ مسیحا ہونٹ
لہو لہو ہے شام تمنا آنسو آنسو صبح طرب
دیکھیں دن پھرتے ہیں کب تک دیکھیں پھر کب ملتے ہیں
دل سے دل آنکھوں سے آنکھیں ہاتھ سے ہاتھ اور لب سے لب
زخمی سرحد زخمی قومیں زخمی انساں زخمی ملک
حرف حق کی صلیب اٹھائے کوئی مسیح تو آئے اب