وہیں سے جب کہ اشارہ ہو خود نمائی کا
عجب کہ بندہ نہ دعویٰ کرے خدائی کا
ملے جو رتبہ ترے در کی جبہہ سائی کا
تو ایک سلسلہ ہو شاہی و گدائی کا
نہیں ہے فیض میں خست ولیک پیدا ہے
تفاوت آئنہ و سنگ میں صفائی کا
یہاں جو عشق ہے بیتاب جلوۂ دیدار
وہاں بھی حسن محرک ہے خود نمائی کا
بتوں کے سامنے بت گر گھسے جبین نیاز
میں شیفتہ ہوں تری شان کبریائی کا
نہ کر کسی کی برائی نہ بن بھلے سے برا
بھلا بھلا ہے برا کام ہے برائی کا
بنائیں بگڑی ہوئی کو تو ایک بات بھی ہے
بگاڑنا نہیں مشکل بنی بنائی کا
اٹھا حجاب تو بس دین و دل دئے ہی بنی
جناب شیخ کو دعویٰ تھا پارسائی کا
تمہارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں
کھلا ہے شہر میں اک محکمہ صفائی کا
ہوس ہے گر سر و ساماں کے جمع کرنے کی
تلاش کر سر و سامان بے نوائی کا
سوائے عشق نہیں کوئی رہبر چالاک
وہاں خرد کو نہیں حوصلہ رسائی کا
اسی کا وصف ہے مقصود شعر خوانی سے
اسی کا ذکر ہے منشا غزل سرائی کا
نہیں ہے اب کے زمانہ کی یہ روش زنہار
میں یادگار ہوں ؔخاقانیؔ و سنائی کا