ویران دشت ہے حدِ نظر کوئی بھی نہیں
میں چل رہا ہوں بظاہر سفر کوئی بھی نہیں
ہر ایک شخص ہے سردار اِس قبیلے میں
مگر نظر میں مری معتبر کوئی بھی نہیں
ہم پنچھیوں کی طرح روز لَوٹ جاتے ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی اب کے گھر کوئی بھی نہیں
اگر یہ دیکھوں کوئی کئی کارواں ہیں میرے ساتھ
اگر یہ سوچوں تو مرا ہمسفر کوئی بھی نہیں
تُو پھر حکمِ جبر دے تو پھر یہ سوچ کے رکھ
مری عوام میں اب بے خبر کوئی بھی نہیں
عقیلؔ درد کا صحرا یہ ختم ہو گا کہیں
اگرچے دھوپ ہے راہ میں شجر کوئی بھی نہیں