ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
Poet: تہذیب حافی By: Sajid, Mir Pur Khas
ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
تم کہتے ہو تو پھر اچھا دیکھا ہے
میں اس کو اپنی وحشت تحفے میں دوں
ہاتھ اٹھائے جس نے صحرا دیکھا ہے
بن دیکھے اس کی تصویر بنا لوں گا
آج تو میں نے اس کو اتنا دیکھا ہے
ایک نظر میں منظر کب کھلتے ہیں دوست
تو نے دیکھا بھی ہے تو کیا دیکھا ہے
عشق میں بندہ مر بھی سکتا ہے، میں نے
دل کی دستاویز میں لکھا دیکھا ہے
میں تو آنکھیں دیکھ کے ہی بتلا دوں گا
تم میں سے کس کس نے دریا دیکھا ہے
آگے سیدھے ہاتھ پہ اک اترائی ہے
میں نے پہلے بھی یہ رستہ دیکھا ہے
تم کو تو اس باغ کا نام پتہ ہو گا
تم نے تو اس شہر کا نقشہ دیکھا ہے
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر






