ویسے میں نے دنیا میں کیا دیکھا ہے
تم کہتے ہو تو پھر اچھا دیکھا ہے
میں اس کو اپنی وحشت تحفے میں دوں
ہاتھ اٹھائے جس نے صحرا دیکھا ہے
بن دیکھے اس کی تصویر بنا لوں گا
آج تو میں نے اس کو اتنا دیکھا ہے
ایک نظر میں منظر کب کھلتے ہیں دوست
تو نے دیکھا بھی ہے تو کیا دیکھا ہے
عشق میں بندہ مر بھی سکتا ہے، میں نے
دل کی دستاویز میں لکھا دیکھا ہے
میں تو آنکھیں دیکھ کے ہی بتلا دوں گا
تم میں سے کس کس نے دریا دیکھا ہے
آگے سیدھے ہاتھ پہ اک اترائی ہے
میں نے پہلے بھی یہ رستہ دیکھا ہے
تم کو تو اس باغ کا نام پتہ ہو گا
تم نے تو اس شہر کا نقشہ دیکھا ہے