ٹکڑوں سے اپنے دل کے جدا ہو گئی ہے ماں
یوں لگ رہا ہے جیسے بہت رو گئی ہے ماں
صورت کو تیری دیکھنا ممکن نہیں رہا
یہ بیج کیا جدائی کا تو بو گئی ہے ماں
اہل ادب بے حس ہیں خدایا دہائی ہے
ان کے گنہ کا بوجھ مگر ڈھو گئی ہے ماں
بچے یہ پوچھتے ہیں خلاؤں میں گھور کر
کل تک یہاں تھی آج کہاں کھو گئی ہے ماں
فرزانہ تیرے بچوں کو نگہتؔ بتائے گی
تھک کر مسافتوں سے سنو سو گئی ہے ماں