Add Poetry

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم

Poet: مومن خان مومن By: واصف, Karachi

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم

اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم

ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم

کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم

ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم

وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

Rate it:
Views: 546
23 Aug, 2022
More Momin Khan Momin Poetry
ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
ہم سے نہ بولو تم، اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجیے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم
بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم
اس کُو میں جا مریں گے مدد اے ہجومِ شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم
صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم
بے روئے مثلِ ابر نہ نکلا غبارِ دل
کہتے تھے ان کو برقِ تبسم ہنسی سے ہم
ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خارِ راہِ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم
کیا گُل کھلے گا دیکھیے ہے فصلِ گُل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم
منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھے
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم
ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم
وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دمِ بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشمِ پری سے ہم
کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم
لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومن نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم
واصف
جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا جوں نکہت گل جنبش ہے جی کا نکل جانا
اے باد صبا میری کروٹ تو بدل جانا
پالغز محبت سے مشکل ہے سنبھل جانا
اس رخ کی صفائی پر اس دل کا بہل جانا
سینہ میں جو دل تڑپا دھر ہی تو دیا دیکھا
پھر بھول گیا کیسا میں ہاتھ کا پھل جانا
اتنا تو نہ گھبراؤ راحت یہیں فرماؤ
گھر میں مرے رہ جاؤ آج اور بھی کل جانا
اے دل وہ جو یاں آیا کیا کیا ہمیں ترسایا
تو نے کہیں سکھلایا قابو سے نکل جانا
کیا ایسے سے دعویٰ ہو محشر میں کہ میں نے تو
نظارۂ قاتل کو احسان اجل جانا
ہے ظلم کرم جتنا تھا فرق پڑا کتنا
مشکل ہے مزاج اتنا اک بار بدل جانا
حوروں کی ثنا خوانی واعظ یوں ہی کب مانی
لے آ کہ ہے نادانی باتوں میں بہل جانا
عشق ان کی بلا جانے عاشق ہوں تو پہچانے
لو مجھ کو اطبا نے سودے کا خلل جانا
کیا باتیں بناتا ہے وہ جان جلاتا ہے
پانی میں دکھاتا ہے کافور کا جل جانا
مطلب ہے کہ وصلت میں ہے بوالہوس آفت میں
اس گرمی صحبت میں اے دل نہ پگھل جانا
دم لینے کی طاقت ہے بیمار محبت ہے
اتنا بھی غنیمت ہے مومنؔ کا سنبھل جانا
amjad
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets