ٹھہر جاؤ چلے جانا ابھی ارمان باقی ہے
ہلال نو نکلنے کا ابھی اعلان باقی ہے
محبت کے سفر میں تم ابھی سے ٹھک گئے اے دوست
ابھی آیا ہے خانیوال ، ابھی ملتان باقی ہے
الیکشن میں ہوئے ہیں منتخب پھر سے وہی چہرے
نتیجہ آ چکا ہے پر ابھی اعلان باقی ہے
ابھی تو چند غزلیں ہی سنی ہیں آپ نے میری
ذرا دل تھام کے رکھنا ابھی دیوان باقی ہے
شرم کاہے کی کرتے ہو ذرا دل کھول کے بولو
کہ زخموں پہ چھڑکنے کا ابھی سامان باقی ہے
میں باقی ہوں، تو باقی ہے، یہ باقی ہے، وہ باقی ہے
مگر کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان باقی ہے
ابھی تم بیر کھا کھا کہ گذارا کر لو اے لوگو
ایمرجنسی اترنے کا ابھی فرمان باقی ہے
کہاں تک کھاؤ گے میرے وطن کو راہنماؤ تم
خدارا بخش دو اس کو ذرا سی جان باقی ہے
کہ اتنی بے حسی پہلے کبھی دیکھی نہیں خالد
نہیں انسانیت تو کیا، ابھی انسان باقی ہے