آدمی تو ہوں پر کسی کام کا نہیں
تہمت نہ باندھ مجھ پہ میں کوئی پارسا نہیں
روزِِ جزا وہ جان لیں گے ساری حقیقت
کردار ابھی تک یہ جہاں جانتا نہیں
بس کہ اس زندگی میں غمِ روزگار ہے
اس کے سوا جگر میں کوئی کانٹا نہیں
کیسے ہوں کامیاب رہِ الفت و چاہت
منزل تو مجھ کو یاد ہے پر راستہ نہیں
شمس و قمر بھی دیکھتے ہیں نگاہِ رشک سے
کہتا ہے جبرائیل۔ “کوئی آپ سا نہیں“
فرحان بتوں کافروں سے التجا نہ کر
واحد خدائے پاک سے کیوں مانگتا نہیں