پانیوں سے چراغ نہیں جلایا کرتے
جذبے تھم جائیں تو انقلاب نہیں آیا کرتے
اک بار جو ڈر کے اُڑ جائیں پنچھی
تو لوٹ کے گھونسلوں میں نہیں آیا کرتے
بھروسے کو بادل بہت ہلکے ہوتے ہیں
یہ موسم ہر سال نہیں آیا کرتے
غلامی کی زنجیریں بڑی قربانیاں مانگتی ہیں
خون بہانے والے، آنسو نہیں بہایا کرتے
طارق تیرے انداز بے باکی میں درس ہے
پیٹھ دیکھانے والے، کشتیاں نہیں جلایا کرتے
کتنا بےخوف ہو کے لوٹتا ہے کافر ہماری عزت
کہ ابن قاسم یہاں روز نہیں آیا کرتے