اب کوئی غفلت نا اب کوئی ندامت چاہیے
سرحدیں محفوظ ہوں ایسی حقیقت چاہیے
اتنے دن میں چپ رہا سہتا رہا سارے ستم
آج مجھ کو لب کشائی کی اجازت چاہیے
ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں بات ان سے کر سکے
دوستو اس بار کچھ ایسی قیادت چاہیے
دوست بن کر دشمنی کا وار جس نے ہے کیا
اس منافق پر یہاں ڈھانی قیامت چاہیے
روز و شب کرتا رہے جو دیس میں خرمستیاں
ایسے سلطاں سے ہمیں کرنی بغاوت چاہیے
جس نے اپنی جان کو قربان دھرتی پر کیا
اس محافظ سے ہمیں کرنی محبت چاہیے
آے دن پامال کرتے ہیں ہماری حرمتیں
دوستی ان سے نہیں ہم کو عداوت چاہیے
جس نے سرحد پر مری شب خون مارا ہے سہیل
اب نا وه مجرم کہیں مجھ کو سلامت چاہیے