اندھیر نگری میں ہم نے چوپٹ نظام دیکھا کہ راج دیکھا
اک راہزن کو تخت پہ قابض سجائے سر پر ہے تاج دیکھا
تیرے گناہ بھی ثواب سارے، سبھی خطائیں بھی نیکیاں ہیں
رقم کے بدلے کچھ اسطرح سے برائیوں کا علاج دیکھا
جو تو نے لوٹا وہ تیری قسمت، جو میں جھپٹ لوں وہ میرا حصہ
لٹیروں کے معاشرے میں رائج قدیم رسم و رواج دیکھا
جبر کو سہتے غریب دیکھے، قہرکے پیچھے امیر دیکھے
گھٹن زدہ اس معاشرے میں ستم کا داعی سماج دیکھا
لہو رواں ہے ہر اک بدن سے جوان بوڑھے لہولہاں ہیں
لہو کے دھارے بپھر چکے ہیں یہ انتقامی مزاج دیکھا
حسینیت کے صبر کے آگے یزیدیت کی شکست دیکھی
جو ماضی میں کھو گیا کہیں تھا وہ کربلا ہم نے آج دیکھا
بہت ہی مشکل یہ شخصیت ہے بدلتے رنگوں سے منفرد ہے
اشہر تیرے پائے کا نہ ہم نے کوئی بھی نازک مزاج دیکھا