پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
Poet: احمد مشتاق By: Hassan, Hyderabadپتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنج اماں بھی
یہ دل یہ بے نشاں کمرہ ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایا ہمارا
More Ahmad Mushtaq Poetry
کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی کیسے انہیں بھلاؤں محبت جنہوں نے کی
مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنہوں نے کی
دنیا میں احترام کے قابل وہ لوگ ہیں
اے ذلت وفا تری عزت جنہوں نے کی
تزئین کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرأت جنہوں نے کی
آسودگان منزل لیلیٰ اداس ہیں
اچھے رہے نہ طے یہ مسافت جنہوں نے کی
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب محبت جنہوں نے کی
مجھ کو تو وہ بھی یاد ہیں نفرت جنہوں نے کی
دنیا میں احترام کے قابل وہ لوگ ہیں
اے ذلت وفا تری عزت جنہوں نے کی
تزئین کائنات کا باعث وہی بنے
دنیا سے اختلاف کی جرأت جنہوں نے کی
آسودگان منزل لیلیٰ اداس ہیں
اچھے رہے نہ طے یہ مسافت جنہوں نے کی
اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل
وہ بھی ہوئے خراب محبت جنہوں نے کی
Ijlal
پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنج اماں بھی
یہ دل یہ بے نشاں کمرہ ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
وہی ٹوٹی ہوئی کشتی ہے اپنی
وہی ٹھہرا ہوا دریا ہمارا
یہ مقتل بھی ہے اور کنج اماں بھی
یہ دل یہ بے نشاں کمرہ ہمارا
کسی جانب نہیں کھلتے دریچے
کہیں جاتا نہیں رستہ ہمارا
ہم اپنی دھوپ میں بیٹھے ہیں مشتاقؔ
ہمارے ساتھ ہے سایا ہمارا
Hassan
یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں یہ تنہا رات یہ گہری فضائیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں
چلو ایسا مکاں آباد کر لیں
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں
اسے ڈھونڈیں کہ اس کو بھول جائیں
خیالوں کی گھنی خاموشیوں میں
گھلی جاتی ہیں لفظوں کی صدائیں
یہ رستے رہروؤں سے بھاگتے ہیں
یہاں چھپ چھپ کے چلتی ہیں ہوائیں
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اسے دیکھیں کہ اس میں ڈوب جائیں
جو غم جلتے ہیں شعروں کی چتا میں
انہیں پھر اپنے سینے سے لگائیں
چلو ایسا مکاں آباد کر لیں
جہاں لوگوں کی آوازیں نہ آئیں
Wahaj
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے
اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے
اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے
اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
Waqas
اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شب غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامان سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاقؔ
رہ گیا ساغر گل سبزۂ تر پر رکھا
پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا
ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شب غم کا آنچل
اور اک ہاتھ کو دامان سحر پر رکھا
چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے
نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا
جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ
مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا
جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاقؔ
رہ گیا ساغر گل سبزۂ تر پر رکھا
minhaj
آج رو کر تو دکھائے کوئی ایسا رونا آج رو کر تو دکھائے کوئی ایسا رونا
یاد کر اے دل خاموش وہ اپنا رونا
رقص کرنا کبھی خوابوں کے شبستانوں میں
کبھی یادوں کے ستونوں سے لپٹنا رونا
تجھ سے سیکھے کوئی رونے کا سلیقہ اے ابر
کہیں قطرہ نہ گرانا کہیں دریا رونا
رسم دنیا بھی وہی راہ تمنا بھی وہی
وہی مل بیٹھ کے ہنسنا وہی تنہا رونا
یہ ترا طور سمجھ میں نہیں آیا مشتاقؔ
کبھی ہنستے چلے جانا کبھی اتنا رونا
یاد کر اے دل خاموش وہ اپنا رونا
رقص کرنا کبھی خوابوں کے شبستانوں میں
کبھی یادوں کے ستونوں سے لپٹنا رونا
تجھ سے سیکھے کوئی رونے کا سلیقہ اے ابر
کہیں قطرہ نہ گرانا کہیں دریا رونا
رسم دنیا بھی وہی راہ تمنا بھی وہی
وہی مل بیٹھ کے ہنسنا وہی تنہا رونا
یہ ترا طور سمجھ میں نہیں آیا مشتاقؔ
کبھی ہنستے چلے جانا کبھی اتنا رونا
sana






