پرانے دوست کبھی بھلائے نہیں جاتے
نئے رشتے بھی احساس کے بنائے نہیں جاتے
جو ساتھ لےجائیں سبھی خوشیاں سمیٹ کر
ان کے غم بھی دل سے نکالے نہیں جاتے
بدن کو چیر جاتے ہیں یوں پل میں
کانپتے ہاتھوں سے ٹانکے بھی لگائے نہیں جاتے
رتجگوں کا تحفہ دے جاتے ہیں آنکھوں کو
پلکوں پہ خواب پھر سجائے نہیں جاتے
چپ چاپ چلے جاتے ہیں دامن چھوڑ کر
تا عمر دعاؤں سے بھی واپس بلائے نہیں جاتے
اجڑ جائے مکاں جو مکیں کے چھوڑ جانے سے
وہاں آشیاں نئے بنائے نہیں جاتے
اعتبار دل مجروح نہ کر دیں کہیں
نئے بندھن اب ہم سے آزمائے نہیں جاتے
جوانی کی دہلیز پہ پہلا قدم رکھتے ہوئے
ارمان سہانے خاک میں ملائے نہیں جاتے