پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دل سا دکھایا تو باپ رونے لگا
جو امی نہ رہیں تو کیا ہوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا
یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا
بٹھا کے رکشے میں کل شب روانہ کرتے ہوئے
دیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا
ہمیں بنا دئے کمرے خود اس کو ٹی وی پر
مدینہ جب نظر آیا تو باپ رونے لگا
کل اس کے دوست کو باہر سے ٹالنے کے بعد
اسے فقیر بتایا تو باپ رونے لگا
بہن روانگی سے پہلے پیار لینے گئی
جو کچھ بھی دے نہیں پایا تو باپ رونے لگا
کیا ہی کیا ہے بھلا آج تک ہمارے لیے
سوال جوں ہی اٹھایا تو باپ رونے لگا
طبیب کہتا تھا پاگل کو کچھ بھی یاد نہیں
گلے سے میں نے لگایا تو باپ رونے لگا
نہ جانے قیسؔ نے کس جذبے سے یہ کیا لکھا
کہ جوں ہی پڑھ کے سنایا تو باپ رونے لگا