بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں
یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے
ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے