پرکی قوم کے لئے حسن پرکی کا یہ نوحہ ہے
Poet: purki By: m.hassan, karachiکچھ لوگوں نے بنائی ہے سپریم کونسل
وقت ہی بتائے گا اس کی فضل
کون رہبر ہے اور کون رہزن ہے
وقت ہی دکھائے گا ان کی شکل
اللہ کرے کچھ کام ہواور قوم کا بھلا ہو
ہم چاہتے ہیں قوم جلد کاٹے اس کی فصل
قوم سالوں سے سب کو جانتی ہے
مجھے کیا پڑی ہے پوچھوں ان کی نسل
ایمرجنسی میں بنائی ہے یہ سپریم کونسل
میں تو اسے کہوں گا صرف ایمرجنسی کونسل
آئین کی رو سے عوام کو ہے یہ اختیار
تو کیسے راتوں رات بنائی سپریم کونسل
علمائے حق کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں
پہلے وہ خود کوثابت تو کرے اس کے اہل
سپریم کونسل محض ایک بلیکوس ڈیزائن ہے
چند شاطر دماغوں کا یہ اختراع ہے اصل
قوم کو ملّاؤں کی زنجیروں میں مت جکڑو
انھہیں آزاد رہنے دو انھیں آزاد رہنے دو
بڑی مشکل سے توڑی ہے غلامی کی یہ زنجیریں
انہیں پھر سے کسی زنجیر میں مت باندھوو
ملّاؤں نے ٦٥ سا لوں میں قوم کو دیا ہی کیا ہے
خدارا سوچو خدارا سوچو اور ان پر زرا رحم کرو
پرکی قوم کے لئے حسن پرکی کا یہ نوحہ ہے
پڑھے، سنے اور سمجھے تو بہت شکریہ ہے
جہاں قاتل باعزت اور مظلوم بے سکون یہاں
دلیل اگر سچ ہو، تو جرم بن جاتی ہے
جھوٹ اگر بااثر ہو، قسم کھا لی جاتی ہے
لب سِل گئے، قلم توڑا گیا، حق کی بات ٹھکرائی گئی
پھر بھی انصاف کے مندر میں، رام کہانی سنائی گئی
کمرہ عدالت میں منصف تو تھا مگر انصاف نہ تھا
ایک اسٹیج تھا ایک اسکرپٹ تھا ڈر کا تماشا تھا
فیصلے طے تھے پہلے سے فیصلہ ساز بعد میں آیا
سچ کے گواہ مر گئے اور جھوٹا گواہی لے آیا
کیا یاد ہے وہ شخص؟ جو حرفِ حق کہتا تھا
آج اس کا سایہ بھی قید ہے وہ خود کیا کہتا تھا؟
یہ نظام، یہ دربار، یہ نیلامی کا موسم ہے
وہ بازار ہے جہاں سچ کی بولی لگتی ہر دم ہے
مگر سن لو...
اندھوں کی عدالتیں رہتی نہیں قائم ہمیشہ
اندھیرا حد سے بڑھے ضرور سورج چمکتا ہے وہاں
وہ جو سچ ہے وہ اک دن لوٹ کر آئے گا
جو فیصلہ ظالم نے دیا — وقت اُسے مٹائے گا
کہ تجھے ہم نے بنا دیا ہے تماشئہ سُخن
بھول گۓ سب وہ مقصد وہ عہدوفا
جس نے بنایا ہمیں ایک قوم، ایک صدا
یہ زمین جوایک کا نہیں، ہے سب کا مقام
پنجابی، بلوچ، سندھی، پٹھان، ایک ہی ہے ہمارا نام
پُتلی تماشا ہے اصل بازی گروں کا یہ نظام
چھین لیتے ہیں سب کچھ جو نہ جھکیں ان کے سلام
حکمران سے لے کر سب کا یہی حال
فکر ہے تو بس جاگیر کی، نہ کوئی قومی خیال
ہر قبیلے میں بٹی قوم، زبانوں میں الجھی سوچ
کہ ہر ایک کہتا ہے
یہ خطہ میرا ہے، جیسے باقی سب کچھ ہو دوچ
نہ کبھی ہم اک زبان ہوۓ، نہ دل سے دل، نہ اک جان
ہم نے خود ہی توڑا ہے انقلاب کا ہر امکان
ہر 14 اگست میں کیوں نہ کہے" ہم آزاد ہیں، زندہ باد ہیں"
جب خود ظلم کے عادی ہو، غلامی پہ راضی ہو؟
اگر صرف تین بنیادی حق بھی نہ دے-
تعلیم، رہائش، اور تحفظ، ہر ایک کو، حکومت
تو پھر کس بات کی صدارت؟ کس بات کی وزارت؟
نہ یہ تخت تیرا تھا، نہ یہ وطن تیرا جائیداد
پھر کیوں ہم پر تمہیں مسلط کیا گیا بن ارشاد؟
سب قصوروار ہے
نہ صرف حکومت، نہ صرف عوام، سب کا کردار ہے
ہاتھوں سے اجاڑا ہے یہ چمن-
نہ کوئی اور آیا، نہ کوئی دوشمن، ہم ہی ہے وہ ظالم بن
خدارا! بانٹو نہ خود کو قوموں میں، مذاہب میں، دشمن کی چال پر
مت بھولو، اسی اتحاد پر ہمیں ملی تھی آزادی شام و سحر کے دام پر
اگر نہ بدلے، ہر فرد، ہر ادارہ
تو رہ جاۓ گا صرف ایک خاکہ، ایک قصہ، ایک خسارہ
کہا کس نے کہ مردہ ہے پاکستان
میں زندہ ہوں تو زندہ ہےپاکستان
نہ میرا ہے نہ تیرا ہےپاکستان
ہمارا تھا ہمارا ہےپاکستان
لبوں پر مہر خاموشی ہے گویا
بظاہر سب کی سنتا ہےپاکستان
کہو مت اس کو گونگا اور بہرا
نہ گونگا ہے نہ بہرا ہے پاکستان
بھپر جائے تو مشکل ہے سنبھلنا
اسی ڈر سے تو ڈرتا ہےپاکستان
فضا میں زہر گھولا جارہا ہے
سناہے سانس لیتا ہے پاکستان
جسے سب قید کرنا چاہتے ہیں
یہ وہ سونے کی چڑیا ہےپاکستان
کوئی کیسے ڈبو سکتا ہے اس کو
سمندر میں بھی بستا ہے پاکستان
ملے گردیدہ بینا تو دیکھو
سمندر دل میں رکھتا ہے پاکستان
سمٹ آیا ہے کراچی اس میں
ہر اک صوبے کا چہرہ ہےپاکستان
ہمارے دم میں دم اس سے وشمہ
مثال دل دھڑکتا ہےپاکستان
رکھتے اپنے رب پہ ایمان ہیں
کرتے ہیں وطن سے پیار اس قدر
دے دیتے اسی کی خاطر اپنی جان ہیں
پاک فوج زندہ باد، پاک فوج زندہ باد
پاک فوج زندہ باد، پاک فوج زندہ باد
دیس کی خاطر جیتے ہیں یہ
اس کی خاطر مرتے ہیں یہ
دن ہو یا رات ہو اندھیری
سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں یہ
دھرتی پہ اپنا سب کچھ
کر دیتے یہ قربان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
جھپٹتے ہیں یہ
پلٹے ہیں یہ
وطن کی خاطر لڑتے ہیں یہ
شوق شہادت کا لے کر
ہر میداں میں اترتے ہیں یہ
آبرو ہیں یہ اپنی قوم کی
وطن کی آن ہیں شان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
شاہیں ہیں فضاؤں کے محافظ
سمندروں کی نیوی پاسبان ہے
آرمی کرتی ہے سرحدوں کی حفاظت
اور ان سب پر اللہ مہربان ہے
شجاعت کی یہ ہیں علامت
ہمتوں کے یہ نشان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
پاک فوج کے یہ جو جوان ہیں
حرام خور یہاں سارے لوگ ساغِر ہیں
یہاں وزارتِ عظمیٰ نشست بکتی ہے
جو ظاہراً تو بہت خوشگوار دِکھتی ہے
یہاں پہ جسم بکے، دل بکے، ضمیر بکے
وکیل و منصف و انصاف کیا، وزیر بکے
یہ وہ نگر ہے جہاں باپ بیچے بچوں کو
کہ بھیک مانگتے دیکھا ہے کتنی ماؤں کو
جو گھر میں آئے وہ مہمان بکتے دیکھے ہیں
کہ چند ٹکّوں پہ ایمان بکتے دیکھے ہیں
یہ وہ نگر ہے جہاں پر دیانتیں مفقود
فقط ہے مال بنانا عوام کا مقصود
جو حکمران ہیں بے شرم ہیں، یہ بے حس ہیں
سو محتسب بھی انہیں کے شریکِ مجلس ہیں
ادارے جو تھے وہ برباد ہوتے جاتے ہیں
نہیں ہے پیروی، ہم جن کا دن مناتے ہیں
سہولتیں تو یہاں کچھ نہیں میسر ہیں
بلوں پہ بل ہیں، یہاں حال سب کے ابتر ہیں
نہیں ہے گیس نہ بجلی نہ آب ملتا ہے
کریں جو شور تو روکھا جواب ملتا ہے
گرانیوں کا یہ عالم کہ لوگ مرنے لگے
کہ گھاٹیوں میں سبھی موت کی اترنے لگے
ہر ایک چہرے پہ زردی مَلی ملے گی یہاں
کلی بہار کی لگتا نہیں کھلے گی یہاں
وہ دیکھ ملک میں افلاس سر اٹھائے ہوئے
کہ ابر ظلم کے ہر سمت دیکھ چھائے ہوئے
یہ لوگ بھوک سے مجبور خود کشی پر ہیں
کہ دنگ ایسے میں حاکم کی بے حسی پر ہیں
یہ ملک جیسے کہیں پر پڑا ہے لوٹ کا مال
کسی کو روک سکے کب کسی میں ایسی مجال
سو لوٹنے میں لگا ہے یہاں پہ ہر کوئی
یہاں سے سکھ تو لیا سب نے بھوک ہے بوئی
بڑے نے چھوٹے کو محکوم کر کے رکھا تھا
نتیجہ دیکھ لیا سب نے یہ تعاصب کا
ہمارے لہجوں میں تلخی کا ذمہ دار ہے کون؟
امیرِ شہر نہیں ہے تو داغدار ہے کون؟
گلی گلی میں جو بکھرے ہوئے یہ لاشے ہیں
غلیظ چہرے پہ حاکم کے ہی طمانچے ہیں
بھریں یہ جیب، رعایا کو صرف ٹھینگا ہے
نظام سارا یہ آنکھوں سے گویا بھینگا ہے
ہوئے جو بعد میں آزاد سب عروج پہ ہیں
یہاں پہ دوش ہیں، الزام ایک دوج پہ ہیں
کوئی بھی کام یہاں سود بن نہیں ہوتا
جو ہوتا قائدِ اعظم تو آبگیں ہوتا
عدالتوں میں جو انصاف بکتا آیا ہے
یہ کام قائدِ اعظم کے زیرِ سایہ ہے
معالجوں کی طرف دیکھتے ہیں، روتے ہیں
یہ رقمیں لے کے بھی نیّا فقط ڈبوتے ہیں
اسی طرح سے ہو استاد یا کہ سوداگر
سبھی کے سب ہیں یہ جلّاد سارے فتنہ گر
ہو مولوی کہ ہو رنگ ساز اور زلف تراش
کہ پانیوں پہ ابھر آئے جیسے کوئی لاش
اگر تو دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے
دکان دار میں ایمان پایا جاتا ہے
وگرنہ زہر ہے بکتا بنامِ دودھ یہاں
کہ پی کے جسکو رہے گا کہیں نہ نام و نشاں
مٹھاس پھل میں بھریں لوگ کس سلیقے سے
کریں نہ ایسا تو یہ پھل ہیں پھیکے پھیکے سے
برادہ مرچ میں، پتی میں ڈالتے ہیں خون
بنا کے مال یہ جائیں گے جیسے دیرہ دون
یہ زلزلے کہ ہوں طوفان بے سبب تو نہیں
یہ سوچنا ہے کہ ناراض ہم سے ربّ تو نہیں
صحافیوں کی یہ فوجیں ہیں یا فسانہ نگار
یہ پتر کار یہ شاعر ادیب و شاہ سوار
کسی کو اپنے فرائض کا کچھ نہیں احساس
نہیں ہے چھوٹوں پہ شفقت، سفید ریش کا پاس
لگا ہے ہر کوئی اپنی دکاں بڑھانے میں
سپاہی فوج میں، پولیس اپنے تھانے میں
کرو گے کب تلک اس بات سے نظر پوشی
رہا نہ ملک تو ٹھہراؤ گے کسے دوشی
ابھی بھی وقت ہے خود اپنا احتساب کریں
کہ پورا ملک کی شادابیوں کا خواب کریں
رشیدؔ اپنا بھی کچھ احتساب ہے کہ نہیں؟
ذرا گناہ سے ہی اجتناب ہے کہ نہیں؟






