پلٹ کر اشک سوئے چشم تر آتا نہیں ہے
یہ وہ بھٹکا مسافر ہے جو گھر آتا نہیں ہے
قفس اب آشیاں ہے خاک پر لکھی ہے روزی
کبھی دل میں خیال بال و پر آتا نہیں ہے
پہاڑوں کی سیاہی سے فزوں دل کی سیاہی
وہ حسن اب اپنی آنکھوں کو نظر آتا نہیں ہے
شجر برسوں سے نقش رائیگاں بن کر کھڑے ہیں
کوئی موسم ہو شاخوں میں ثمر آتا نہیں ہے
مرے اس اولیں اشک محبت پر نظر کر
یہ موتی سیپ میں پھر عمر بھر آتا نہیں ہے
کوئی قاتل رواں ہے میری شریانوں میں خورشیدؔ
جو مجھ کو قتل کرتا ہے نظر آتا نہیں ہے