پوچھو تو ذرا شیخ سے کیا ڈھونڈ رہا ہے
نادان ہے، کعبے میں خدا ڈھونڈ رہا ہے
سرگشتہِ ایامِ جہالت ہے ابھی تک
وہ شخص جو پتھر میں عطا ڈھونڈ رہا ہے
سر پھوڑتا پھرتا ہے جو ہر سنگ و گُہر پے
بیزار ہے، جنت میں قضا ڈھونڈ رہا ہے
سادہ ہے بہت صاحبو بیمارِ مسیحا
ہر شخص کی پھونکوں میں شفا ڈھونڈ رہا ہے