پچھتاوے اور امیدوں میں گزرتا دسمبر
اور انہیں امیدوں کے محور میں تمہارا نظر آنا
میرے خود غرض شہر کی خود غرض نظریں
اُنہیں خود غرض نظروں میں تم سے نظر ملانا
آغاز تعلق میں ہی آپنائیت ء وفا کے وعدے
اور انہیں وعدوں میں بے وفا دسمبر کو بھول جانا
خوش فہمیوں اور لذت بھری تاریک راتیں
اور انہیں گھپ را توں میں حقیقت سحر کو بھول جانا
میری ہر خواہش پہ تیری ذات کا قابض آنا
اور اسی الگ ذات میں اپنی ذات کو بھول جانا
بدلتے موسم میں تیرے بدلتے رویے
انہیں بدلتے رویوں میں انجام ماضی کو بھول جانا
نظر اندازی کے کھیل میں ہی تیرا اعلان ترک تعلق
اور اسی ترک تعلق سے پہلے ہی تجھے کسی اور کا مِل جانا
اب تو زندگی حقیقت نگاہ سے گزاریں گے خرم
اور پھر اسی خرم کا ہر شام فریب خواب میں کھو جانا