پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
Poet: ریحان معتبرؔ By: ریحان معتبرؔ, Karachiچلے آؤ دوبارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کرو کچھ تو اشارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کئی مدت سے کوئی اطلاع بھی آئی نہ تیری
نہ خط آیا تمھارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
یہ جاں لیوا دُکھوں کے سانپ ڈستے رہتے ہیں مجھ کو
مداوا ہو خُدارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
ہوائیں سرد چلتی ہیں تو مجھ کو یاد آتا ہے
سمندر کا کنارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
اندھیروں کے سوا کچھ بھی نہ تھا سالِ گُزشتہ میں
جو تیرے بن گزارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کبھی بادل کو اُوڑھے چاند نکلے یاد آجائے
رُخِ تاباں تمھارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
کبھی قسمت سے چمکے گا دلوں کے آسمانوں پر
تیرے ملنے کا تارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
سفیدی آگئی بالوں میں پھر بھی تیری آمد پر
لباسِ غم اُتارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
اُمیدِِ واپسی کے ہی سبب پھر آج بام و در
مہک اُٹھا ہے سارا پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
فقط اک شوق کی خاطر غزل یہ مُعتبر ؔ لکھی
یہ سب تھا اِستعارہ پھر دسمبر لوٹ آیا ہے
پھول کے ہاتھ میں خنجر بھی تو ہو سکتا ہے
ایک مدت سے جسے لوگ خدا کہتے ہیں
چھو کے دیکھو کہ وہ پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
مجھ کو آوارگئ عشق کا الزام نہ دو
کوئی اس شہر میں بے گھر بھی تو ہو سکتا ہے
کیسے ممکن کہ اسے جاں کے برابر سمجھوں
وہ مری جان سے بڑھ کر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف ساون تو نہیں آگ لگانے والا
جون کی طرح دسمبر بھی تو ہو سکتا ہے
چاک دامن سے مرے مجھ کو برا مت سمجھو
کوئی یوسف سا پیمبر بھی تو ہو سکتا ہے
صرف چہروں پہ لطافت کوئی موقوف نہیں
چاند جیسا کوئی پتھر بھی تو ہو سکتا ہے
تم سر راہ ملے تھے تو کبھی پھر سے ملو
حادثہ شہر میں اکثر بھی تو ہو سکتا ہے
سارا الزام جفا اس پہ کہاں تک رکھوں
یہ مرا اپنا مقدر بھی تو ہو سکتا ہے
کیا ضروری ہے کہ ہم سر کو جھکائیں زخمیؔ
ایک سجدہ مرے اندر بھی تو ہو سکتا ہے
درخت جاں پہ وہی سردیوں کا موسم ہے
شوقین ہو جس کو پڑهنے کے تم
دسمبر کی وه اداس شاعری ہوں میں
جاتے ہوئے دسمبر کی کھڑکی سے
میں نے ہنستا ہوا جنوری دیکھا
اف یہ دسمبر کی آخری گھڑیاں
میرے پہلو میں کاش تم ہوتے
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ھمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ہر طرف یادوں کا دسمبر بکھر گیا
تیس دن تک اسی دیوار پہ لٹکے گا یہ عکس
ختم اک دن میں دسمبر نہیں ہونے والا
ان دنوں تعلق تھوڑا مضبوط رکھنا
سنا ہے دسمبر کے بچھڑے کبھی نہیں ملتے
دسمبر جب بھی لوٹتا ہے میرے خاموش کمرے میں
میرے بستر پر بکھری کتا بیں بھیگ جاتی ہیں
ٹھٹھرتی ہوئی شبِ سیاہ اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر کے ماروں پہ قیامت ہے دسمبر
جم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں
جو ہمیں بھول ہی گیا تھا اسے
یاد آئے ہیں ہم دسمبر میں
سارے شکوے گلے بھلا کے اب
لوٹ آ اے صنم دسمبر میں
کس کا غم کھائے جا رہا ہے تمہیں
آنکھ کیوں ہے یہ نم دسمبر میں
یاد آتا ہے وہ بچھڑنا جب
خوب روئے تھے ہم دسمبر میں
وہی پل ہے وہی ہے شام حزیں
آج پھر بچھڑے ہم دسمبر میں
بس یہی اک تمنا ہے اندرؔ
کاش مل جائیں ہم دسمبر میں






