پھر سے ان آنکھوں میں استفسار ہے
کچھ بھی کہنا اس گھڑٰی دشوار ہے
اسکی آنکھیں سب اگل دیتی ہیں سچ
گو اسے اب پیار سے انکار ہے
سرخیاں پڑھ کر سبھی نے چھوڑ دی
زندگانی شام کا اخبار ہے
چوم کر رکھے صحیفے طاق پر
ہر کسی کے ہاتھ میں تلوار ہے
در نہیں ہیں کھڑکیاں بھی اب نہیں
ہر قدم پہ اک نئ دیوار ہے
سارے رشتے ہیں یہاں مطلب پرست
جھوٹ پہ جیسے کھڑا سنسار ہے
اسکے بارے میں زمانہ جو کہے
یار ہے،وہ یار ہے، وہ یار ہے