پھر مرے لب پہ اُنہی کا ذکر ہے شام و سحر
پھر اُنہی کی یاد سے مسرور ہیں قلب و جگر
پھر اُنہی کے نام سے یہ دل ہوا ہے گلستاں
پھر وہی میری جبینِ شوق اور وہ آستاں
لذتِ دیدار لینے کے لئے بے چین ہوں
پھر اُنہی پہ جان دینے کے لئے بے چین ہوں
پھر اُنہی کے در پہ حاضر ہو گیا اُن کا گدا
پھر اُنہی کے سامنے پھیلے ہیں یہ دستِ دُعا
پھر اُسی جانِ جہاں پر جان ہوتی ہے فدا
پھر سے یاد آنے لگی اپنی صدا قالو بلٰی
ہم تو بندے ہیں وہ مالک ہے وہی سرکار ہے
وہ اگر اپنا بنا لے اور کیا درکار ہے