پھر کسی درد کی تو راہ نکال
رختِ ہستی کو چٹک آہ نکال
اے مرے شعر نکل لوح سے پھر
غیر کے حلق سے تو واہ نکال
ماہِ پیکر ترے ہونٹوں کے لئے
شب کسی بیٹھ، گِلِ ماہ نکال
حسن زادے تجھے آتا ہی نہیں
بوسۂ لعلِ بُتاں چاہ نکال
تیرے بس میں ہے اگر، ہجر سے تو
وصل کو جوڑ، خطِ راہ نکال