ہر دور میں حوالہء دارو رسن رہے
سچ کہنے والے مر کے بے گورو کفن رہے
کاٹے گئے وہ ہاتھ جو کم خار کر گئے
پھولوں کے دشمنوں کا مقدر چمن رہے
ہر دور کے امیر کو ریشم ہوا نصیب
مفلس کا تو نصیب پھٹے پیرہن رہے
اہل قلم پہ ایسی بھی گزری قیامتیں
اپنے وطن میں رہتے ہوئے بے وطن رہے
مانا کہ ظلمتوں میں اجالے نہ کر سکے
زاہد کرن کی آس تو اپنے سخن رہے