پھونکوں سے بجھے کب نور ایماں نادانی کا اِقْدام نہیں
جگ میں روشن یہی نور ہوگا یہ تو کوئی اَوہام نہیں
ذرا ہوش میں آ او فرزانے کیوں عقل کے تابع رہتا ہے
یہ بزم ہے بزم جاناں یاں تو ہوش و خِرَد کا کام نہیں
اپنی جو خودی کو مارا ہے اس نے ہی فلاح کو پایا ہے
جو قلب کے روگ سے بچ نہ سکا اس کا بہتر انجام نہیں
غفلت کیسی یہ چھائی ہے گلشن بھی اجڑتا جاتا ہے
کرتوت کا اپنے ہے یہ ثمر اوروں پر کچھ الزام نہیں
جو حق پر قائم رہتے ہیں آواز بھی حق کی اٹھاتے ہیں
جو مشکل وقت میں جمتے ہیں وہ ہی تو ہیں جو ناکام نہیں
کوئی کتنا بڑا بھی پاپی ہو یہ بات اثر کی ذہن میں رہے
امید ہو جُود و کَرَم کی بس پھر تو کوئی آلام نہیں