پھیلی ہوئی فضا میں یہ جو ہاہاکار ہے
محو ِ سخن ضرور کوئی موسیقار ہے
شب جاکے اپنے گھر پہ جو دستک دی تو معاً
بیگم نے پوچھا"کون؟" کہا"خاک سار ہے"
تم کو بتاؤں فوری ترقی کا ایک گر
لیڈر کی چمچہ گیری کرو،بیڑا پار ہے
کھاؤں گا آج میں تو فقط بیس روٹیاں
معدہ ہے سخت،پیٹ میں کچھ انتشار ہے
کم تر ہے اک گدھے سے بھی شوہر کی حیثیت
کہنے کو اپنے گھر کا وہی تاج دار ہے
دوگھنٹہ بات کرتی رہی "رانگ کال"پر
اور اس پہ کہہ رہی ہے ابھی" اختصار ہے"
گرویدہء متھیرا ہوئے سارے نوجواں
گویا کہ سو بمار ہیں اور اک انار ہے
وہ دن گئے کہ ملتے تھے ہر روز باغ میں
دیدار ِ یار دوستو! اب ماہ وار ہے
ریٹارمنٹ ہو گئی،سٹھیا بھی وہ گئے
"اے مرگِ ناگہاں !تجھے کیا انتظار ہے؟"