پہلے تو مجھے کہا نکالو
پھر بولے غریب ہے بلا لو
بے دل رکھنے سے فائدہ کیا
تم جان سے مجھ کو مار ڈالو
اس نے بھی تو دیکھی ہیں یہ آنکھیں
آنکھ آرسی پر سمجھ کے ڈالو
آیا ہے وہ مہ بجھا بھی دو شمع
پروانوں کو بزم سے نکالو
گھبرا کے ہم آئے تھے سوئے حشر
یاں پیش ہے اور ماجرا لو
تکیے میں گیا تو میں پکارا
شب تیرہ ہے جاگو سونے والو
اور دن پہ امیرؔ تکیہ کب تک
تم بھی تو کچھ آپ کو سنبھالو